لاکھ ، لک ، لاک ، لاکھشا ، گالا ، جوء

لاکھ   :

 لاطینی نام   TACHARDIA LACCA KERR

(عربی) لک ۔ (فارسی ) لاک ۔ (ہندی) لاکھشا ۔ ( بنگالی) گالا ۔ (سندھی) جوء۔ (انگریزی) لیک LAC ۔



 یہ گوند کی مانند سرخ دانے ہیں جنہیں چھوٹے چھوٹے لاکھی کیڑے پلاس ، بیری ، پیپل اور برگد وغیرہ کی شاخوں پر بطور گھروندہ تیار کرتے ہیں ۔ لاکھ کیڑوں سے بنی ہوئی ہونے کی وجہ سے اسے لا کھ  یا لاکھشا کہتے ہیں ۔

رنگ: سرخ ۔

ذائقه: پھیکا-

مزاج: گرم خشک ۳۔

 مقدارخوراک: 1/2 گرام سے 2 گرام ۔

مقام پیدائش: بنگال ۔ سندھ ۔ برما ۔ آسام اور خصوصاََ  سی ۔ پی ( مدھیہ بھارت) میں پائی جاتی ہے۔

مصلح: مصطگی ۔

افعال و استعمال : جالی ومحلل ،  مجفف رطوبت اور حابس الدم ہے ۔ بدن کا تنقیہ کرتی ہے۔ معدہ اور جگر کو طاقت بخشتی ہے۔ مجفف رطوبات بدن ہونے کی وجہ سے اس کو بقدر نصف گرام تنہا سرکہ کے ہمراہ یا دیگر ادویہ کے ہمراہ موٹاپے میں کھلاتے ہیں۔ بدن کو دبلا کرتی ہے۔ قوی مسہل ۔ قے آور۔ نافع استسقا مسہل صفراء  یرقان ، دمہ اور کھانسی کو نافع ہے ۔ نفث الدم  کو روکنے کے لیے بکری کے تازہ دودھ کے ہمراہ کھلاتے ہیں۔ اس کو کھانڈ ہم وزن کے ہمراہ ملا کر پھانکنے سے خون تھوکنا اور کثرت حیض رک جاتے ہیں ۔

 سفوف مہزل اس کا مشہور مرکب ہے جو فربہی کو کم کرتا ہے۔ وئید پرانے بخار اور تپ دق میں لاکھ سے بنائے گئے لاکشادی تیل کو استعمال کرتے ہیں اور اسے چھوت دار بیماریوں سے حفاظت کے لیے مفید سمجھتے ہیں ۔ اطبا بیری کی لا کھ اور وئید پیپل کی لاکھ کو بہترین سمجھتے ہیں ۔ لاکھی کیڑے درخت کی پتیوں کا رس چوس کر شاخوں پر جابجا بیٹھ جاتے ہیں تو ان کے جسم سے رال دار مادہ خارج ہونے لگتا ہے، جن سے ان کے ارد گرد گھروندہ کے طور پر گھڑیالی سی بن جاتی ہے۔  نر کیڑوں کی گھڑیالی بیضوی اور مادہ کیڑوں کی گول ہوتی ہے۔ نرکیڑے دو تین ماہ کے بعد گھڑیالی چھوڑ کر باہرنکل جاتے ہیں لیکن مادہ کیڑے اپنے گھروندے میں اندر ہی پڑے رہتے ہیں۔

 اور اس میں انڈے دے کر مر جاتے ہیں ۔  جب انڈوں میں سے بچے نکل آتے ہیں تو وہ اپنی ماں کے جسم سے غذا حاصل کرتے ہیں اور پرورش پا چکنے کے بعد گھڑیالی توڑ کر باہرنکل جاتے ہیں ۔  گھڑیالیاں توڑ کر پانی میں اوٹالی جاتی ہیں تو پانی سرخ ہوجاتا ہے۔

تہ نشین دانوں کو نکال کر خشک کرلیا جاتا ہے اور اس کو کچی لاکھ  کہتے ہیں ۔ سرخ پانی کو آگ پر سکھا کر ایک رنگ بنایا جاتا ہے جسے گلال یا الٹا کہتے ہیں ۔  اسے بنگالی عورتیں مہندی کی بجاۓ ہاتھ پاؤں رنگنے کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اسے سہاگ کی علامت خیال کرتی ہیں مختلف بعض کے نزدیک (قریب سم)۔

 نوٹ: کچی لاکھ کو آگ پر پگھلا کر باریک باریک پترے بنا لیتے ہیں ان کو چیڑا لاکھ شیل لیک SHEELAC کہتے ہیں۔  یہ سناروں اور دیگر ضاعوں کے کام آتی ہے۔ اگر کچی لاکھ کوآگ پر پگھلا کر گرم پانی میں پکائیں تو گرد وغبار تہ نشین ہوکر صاف لاکھ پانی کے اوپر آ جاۓ گی اس کو لک مغسول (دھوئی ہوئی لاکھ ) کہتے ہیں اور یہی دواء مستعمل ہے۔

 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.