مولی :
لاطینی/ نباتاتی نام RAPHANIS SATIVUS LINN
(عرب
) فجل . (فارسی) ترب ۔ (سندھی) موری ۔
(مرہٹی ) ملا ۔ (بنگالی) مولا ۔ (انگریزی)
ریڈش REDISH .
مخروطی شکل کی
اور عام جڑ ہے جو ایک ہا ڈیڑھ بالشت کی
ہوتی ہے۔ اس کی پھلیاں سینگرے یا مونگرے کہلاتی ہے ۔پختہ ہونے پر ان کے اندر سے
رائی کے ماندن تخم نکلتے ہیں ۔
رنگ: سفید سبز ۔
ذائقہ : شوریت مائل اور تیز ۔
مزاج : گرم
1 خشک 2
مقدار خوراک :
مولی ایک عدد بعد از غذا ۔ پانی 48
ملی لیٹر سے 72 ملی لیٹر تک ، مک 1/2سے
ڈیڑھ گرام تک ۔ تخم ایک
گرام سے
دوگرام تک ۔
مقام پیدائش:
ہر جگہ میدانی علاقہ میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔
افعال و استعمال: مدر بول ، کاسر ریاح اور ہاضم
غذا ہے ۔ بذات خود دیر ہضم ہے اس لیے مولی کو نہار منہ اور غذا سے پہلے نہ کھانا
چاہیے۔ بواسیر کو نافع ہے۔ مولی یا اس کے مونگرے یا پتے 60 گرام، کالپی مصری 21
گرام ، بھوری مرچ 5 عدد پانی کے ساتھ پیس چھان کر پلانا مسوں کی خارش جلن اور درد
رفع کرتا ہے ۔ گردہ و مثانہ کی پتھری توڑ
دیتی ہے۔ سدہ جگر کا کھولتی ہے اس لیے کا نور کو مفید ہے ۔ بلغم کو چھانٹتی ہے ۔ تخم مولی کا جوشاندہ بلغمی امراض میں قے لانے
کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ تخم مولی بیرونی طور پر جالی ہونے کی وجہ سے چہرہ کی
سیاہی جھائیں ، برص ، بہق کو دور کرنے اور چہرے کا رنگ صاف کرنے کے لیے مناسب
ادویہ کے ہمراہ پیس کر ضماد کرتے ہیں ۔
مولی کو سرکہ
میں پروردہ کر کے ورم طحال میں کھلاتے ہیں ۔ مولی کے پتوں میں قوت ادرار نسبتاََ
زیادہ ہوتی ہے۔ مولی کے پتوں کا پانی شکر سرخ ملا کر یرقان میں پلاتے ہیں اور آب
مروق بالعصر (نچوڑکر) صفرا کو مرارہ سے اسی طرح صاف کر دیتا ہے جس طرح ملینات
امعاء کو ۔ چنانچہ بعض اطباء التهاب قناة صفرادی اور التہاب مرارہ میں آب مکو مروق
، آب کاسنی مروق ، آپ ترب سبز مروق شربت بزوری ہرایک ، 48 ملی لیٹر استعمال کراتے
ہیں ۔ مولی کے پتوں اور جڑوں کا بطریق معروف نمک نکالا جا تا ہے جو سنگ گردہ و
مثانہ کو خارج کرنے کے لیے کھلاتے ہیں ۔
حجرالیہود کو کشتہ کرتی ہے ۔ ابرک محلوب کا عمدہ
کشتہ مولی کے پانی میں کھرل کر کے دس بارہ
آنچوں میں تیار ہو جاتا ہے۔
کیمیائی تجزیہ: سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں حسب
ذیل اجزاء پاۓ جاتے ہیں۔ بیجوں میں ایک
سٹر ول (براسیکا سیٹرول) ، ٹوکوفیرول ، کیفیٹک ایسڈ اور کچھ مقدار فیرولک ایسڈ
پایا جا تا ہے ۔۔