مچھلی ، سمک ، حوت ، ماہی ، مچھی ، فش

مچھلی  :

(عربی) سمک ۔ حوت ۔ ( فارسی ) ماہی ۔ (سندھی) مچھی ۔ (انگریزی) فش FISH ۔



 

مچھلیاں ایک انچ سے لے کر پچاس فٹ تک اور ایک چھٹانک سے چھ سومن تک ہر سائز اور وزن کی ہوتی ہیں۔  ہرزمانہ میں مچھلی انسان کی اہم غذا رہی ہے۔ سارے پاکستان میں ہر سال دس کروڑ روپے کی مچھلی دستیاب ہوتی ہے۔ اب تک سست رفتار بادبانی کشتیاں مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں لیکن اب اس غرض کے لیے دخانی کشتیاں استعمال ہونے لگی ہیں اور مچھلی کی صنعت کو نئے طریقوں سے فروغ دینے کا بندوبست ہورہا ہے۔ مچھلی کی برآمد سے پاکستان کو جو غیرملکی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس کی پوزیشن اس وقت جوٹ ، روئی ، اون ، چمڑہ اور چائے کے بعد چھٹے نمبر پر ہے۔ ساحل مکران پر ہر سال چالیس ہزارمن سے زائد وزن کی شارک  مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں جن کے جگر کا وزن تقریبا ۸۵۰ من ہوتا ہے۔ شارک مچھلی کے جگر کا تیل فوائد اور استعمال میں کا ڈلیور آئل کے مقابلہ میں بہتر ثابت ہو چکا ہے۔ اگر ساحل مکران پر شارک لیور آئل بنانے کی فیکٹری قائم کرنے کی طرف ہمارے تاجر اور صنعت کارتوجہ دیں تو اس سے پاکستان کے باشندوں کو کا ڈلیور آئل در آمد کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی اور اس طرح ملک کا تقریباََ کروڑوں روپے کا زرمبادلہ جو کاڈلیور آئل درآمد کرنے پر صرف ہوتا ہے بچ رہے گا ۔ بنگلہ دیش میں مچھلی کی تجارت بہت منافع بخش ہے اور وہاں سے تازہ مچھلی کافی مقدار میں کلکتہ بھیجی جاتی ہے ۔ بنگلہ دیش میں سمندری ماہی گیری کوفروغ دینے کے لیے چٹا گانگ میں مرکزی شعبہ سمکیات کی ایک شاخ قائم ہو چکی ہے۔ دریاۓ سندھ میں ہزاروں قسم کی مچھلیاں ملتی ہے لیکن ان سب میں پسندیدہ اور لذیز ترین پلا مچھلی ہے ۔  یہ سمندری مچھلی ہے .. جوانڈے دینے کی غرض سے دریاؤں میں آجاتی ہے۔ اس مچھلی کو بنگال میں ہلسا کہتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کا علاقہ مہاشیر اور دوسری عمدہ مچھلیوں کے لیے مشہور ہے ۔ غرض کہ پاکستان میں ماہی گیری کے وسائل اور ان کی ترقی کے امکانات بہت وسیع ہیں ۔ پاکستان کے لیے یہ صنعت نہ صرف خاص اہمیت رکھتی ہے بلکہ اس کی توسیع اور ترقی ملک کی غذائی مشکلات کوحل کرنے میں کافی حد تک مددگار اور معاون ثابت ہوسکتی ہے۔  مچھلی ہزاروں قسم کی ہوتی ہے۔ بہترین مچھلی راہو ( لے بیورو ہٹا ) LABOE ROHITA ہے ۔ بشرطیکہ تازہ ہو۔ 

باسی مچھلی بری ہے کیونکہ مچھلی کا گوشت لطیف و نازک ہونے کے سبب جلد بگڑ جاتا ہے ۔ تازہ مچھلی کی آنکھ کے ڈھیلے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں اور اسکے گھلپڑے  شوخ گلابی رنگ کے ہوتے ہیں لیکن باسی مچھلی کے ڈھیلے بیٹھ جاتے ہیں اور گھلپڑوں کا رنگ سیاہی مائل ہو جاتا ہے ۔ اور بد بو زیادہ آنے لگتی ہے۔

 

 رنگ: سفید ۔

 

مزاج: گرم۲ ۔ تر ۱ ۔ بعض کے نزدیک مچھلی کی تمام قسمیں مرطوب اور بارد ہوتی ہیں ۔

افعال و استعمال: مچھلی زیادہ تر بطور غذا مستعمل ہے۔ سریع الہضم اور کثیر الغذا ہے۔ لاغر اور کمزور اشخاص کے لیے عمدہ غذا ہے۔ مقوی باہ  و دماغ ہے ۔  مقوی اعضائے رئیسہ اورمسمن بدن ہے ۔  مرض سل ودق اور ذیاہ بیطس میں فائدہ بخشتی ۔ اطباء دودھ کے ساتھ مچھلی استعمال کرنے کی ممانعت کرتے ہیں ۔ مچھلی کا پتا طلاءََ مقوی باہ ہے۔ ایک خاص قسم کی مچھلی کے جگر سے روغن کشید کیا جاتا ہے جس کو کاڈلیور آئل کہتے ہیں ۔ نمک ڈال کر خشک کی ہوئی مچھلی میں سے جو جتنا زیادہ تازہ اور قریب العہد ہوگی وہ زیادہ بہتر ہوگی ۔ اس کی خاصیت گرم و خشک ہوتی ہے۔ مچھلی میں پروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے اس لیے یہ گوشت کا بڑا اچھا بدل بن سکتی ہے اور ملک میں اس وقت گوشت کی جوقلت ہے وہ مچھلی کے ذریعہ دور کی جا سکتی ہے۔

 

 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.