گوشت ، میٹ

گوشت   :

(انگریزی) میٹ MEAT ۔



گوشت نائٹروجن ، چربی ، نمکیات اور پانی کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن اس میں نائٹروجنی اجزا زیادہ ہوتے ہیں اس لیے اسے نائٹروجنی یا پروٹوجینس غذا کہا جاتا ہے۔  ہمارے جسم کے رگ وریشے زیادہ تر نائٹروجنی مرکبات سے بنے ہوئے ہیں اور مختلف حرکات و افعال سے زندگی میں ہرلمحہ ہمارا جسم تحلیل ہوتا رہتا ہے ۔  لہذا بدل ما تئحلل یعنی اس کمی کو پورا کرنے صحت برقرار رکھنے اور جسمانی نشوونما کے لیے ہمیں روزانہ غذا میں اس نائٹروجنی غذا کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین غذا کہتے ہیں کہ پروٹین جو حیوانی غذاوں سے حاصل ہوتا ہے نباتاتی پروٹین سے افضل ہے ۔  حضرت انسان کی گوشت خوری کو دیکھا جاۓ تو تعجب ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں بعض خانہ بدوش قومیں ٹڈیاں ، سانپ اور بچھو  تک کھالیتی ہیں۔  چین کے باشندے کتا ،  بلی ، چوہا ہ وغیرہ کھا جاتے ہیں ۔  اہل فرانس کے لیے مینڈک اور کیکڑا مرغوب غذا ہے۔ افریقہ کے وحشی لوگ بندر اور لنگور کھا لیتے ہیں اور بعض اقوام آدم خور ہیں۔

 یہ مقولہ بالکل درست ہے کہ انسان وہی ہوتا ہے جو کچھ کہ وہ کھاتا ہے۔ گوشت خوری سے طبیعت زود رنج اور غصہ آور ہوجاتی ہے ۔ خود غرضی اور نفسانیت بڑھ جاتی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ جنگ جو اقوام کے لیے گوشت ایک ضروری غذا ہے۔ اگر ضرورت بودردا باشد کے قول پر کار بند ہوکر انسان جو جی چاہے کھاۓ لیکن کوچک ہند ایسے گرم ممالک میں اور خصوصاََ موسم گرما میں زیادہ گوشت خوری یقیناََ مضر ہے۔ شیخ الرئیس فرماتے ہیں کہ گوشت خواہ کسی قسم کا ہو۔ اس کو کباب بنانے یا بھوننے کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے ڈھکنا نہیں چاہیے اگر ڈھک دیا جائے تو وہ زہریلا ہو جاتا ہے۔ شبانہ روز میں ایک جوان آدمی کو نصف پاؤ گوشت سے زائد ہرگز نہ کھانا چاہیے۔

 کثرت گوشت خوری نقصان دہ اور بیماری کا موجب ہوتی ہے۔ مختلف حیوانات کے گوشت کی خاصیت بلحاظ ہضم اور غذائیت کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔

 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.