صنوبر :
لاطینی نباتاتی نام PINUS ROXBURGHII SARGENT
(فارسی وعربی) صنوبر۔( پنجابی ) چیل ۔ چیڑ
۔(بنگالی ) سرل گاچھ ۔ (سندھی) کوتگر۔ (سنسکرت) سرلا۔ (انگریزی) اولیورائیزن پائین
OLEO
RISEN PINE
-
ایک خوش نما
اونچا درخت ہے پتے مثل دھاگے کے ایک بالشت لمبے ہوتے ہیں ۔ پھل
مخروطی شکل کا جسے پہاڑی لوگ چوکٹو کہتے ہیں اور جلانے کے کام میں لاتے ہیں
۔ اس کے پتے اور چھال دواءََ مستعمل ہیں ۔ اس کی ایک قسم سرل ہے جس سے روغن تارپین
اور گندہ بہروزہ نکلتا ہے ۔ بڑے درخت کو صنوبر کبار اور چھوٹے کو صنوبر صغار کہتے
ہیں ۔ اس کی لکڑی اتنی چرب ہوتی ہے کہ چراغ کی جگہ جل سکتی ہے۔ اس کی بہت ہی قسمیں
ہیں۔ گرجن ، کیلو اور کائل ۔ یہ تینوں بھی صنوبر کی قسم سے
ہیں ۔ درخت صنوبر کبار کا پھل چلغوزہ ہے ۔
رنگ: سبز ۔
ذائقه: تلخ ۔
مزاج : گرم
درجه سوم خشک درجہ دوم ۔
مقدارخوراک: 2
گرام ۔
مقام پیدائش:
افغانستان ، کشمیر ، پنجاب ، یوپی ، آسام
، شمالی اور جنوبی برما میں 2 ہزار سے 6 ہزار فٹ کی بلندی پر پیدا ہوتا ہے
۔
افعال و استعمال: گلے کے درد اور پھیپھڑے کے زخم کے لیے اس کے
پتوں اور چھال کا جوشاندہ پینا مفید ہے۔ سیلان خون اورنکسیر کو بند کرتا ہے ۔ اس
کے جوشاندے کی کلی دانتوں کے درد کو تسکین دیتی ہے اور اس کے جوشاندے سے آب زن
کرنا امراض رحم ومقعد کے لیے مفید ہے۔ اس کوشہد ملا کر کھانا جگر کی بیماریوں میں
مفید ہے۔ خشک چھال ، پتوں کا سفوف سرد پانی کے ہمراہ کھلا نا دستوں کو بند کرتا ہے ۔ صنوبر کی لکڑی کی دھونی سے حشرت الارض بھاگ
جاتے ہیں اور مچھر مرجاتے ہیں اور اس کی متواتر دھونی رحم سے بچے کو مع مشیمہ کے
خارج کردینے میں ممد ہے اور حیض لاتی ہے۔
شیخ نے لکھا ہے کہ صنوبر صغار کا گوند پرانی
کھانسی کو بہت نافع ہے اور وہ زفت کی ایک قسم ہے ۔